mazahiruloom@gmail.com 9045818920

نظمائے مظاہرعلوم

(۵) حضرت مولانا مفتی مظفرحسینؒ

فقیہ الاسلام کاجدی وطن ہا پوڑ ضلع غازی آباد سے قریب مو ضع ٹیالہ ہے وہاں سے اس خاندان کے مو رث اعلیٰ خواجہ علی احمد صاحب کے فرزند جناب لعل محمد خان صاحب کے پوتے جناب ثناء اللہ خان صاحب نے منتقل ہو کر قصبہ اجراڑہ ضلع میرٹھ کو اپنا وطن بنا لیا اور یہیں ان کی اولاد رہنے لگی اس طرح خاندان ثنائی کا وطن اجراڑہ ہو گیا ۔
آپ ؒکا سلسلۂ نسب آپ کے جد امجد جناب ثناء اللہ خان ؒسے ہوتا ہوا خاندان کے مورث اعلیٰ جناب نادر علیؒ وزیراعظم شاہی کے برادر جناب خواجہ علی مرحوم سے مل جا تا ہے سلسلۂ نسب اس طرح ہے ۔
حضرت مو لانا مفتی مظفر حسینؒ ابن حضرت اقدس مو لانا مفتی قاری سعید احمد ؒابن جناب منشی نورمحمد ؒابن جناب نصیب اللہ ابن جناب ثناء اللہ رحمہم اللہ اجمعین۔
آپؒ کی عمر جب تقریباً ڈھائی برس کی تھی اورابھی والدہ ماجدہ کی آغوش سے جدانہیں ہوئے تھے یعنی فروری ۱۹۳۱ء تک عم کا پاؤپارہ حفظ ہوگیا تھا اوربہشتی زیورسے مختلف نیک بیبیوںکے قصے اپنی والدہ ماجدہ سے سن کر زبانی یاد کرلئے تھے ۔
۱۳۳۲ھ میںجب آپ کی عمر چوتھے سال میں داخل ہوئی تو آپ کومظاہرعلو م کے مکتب خصوصی میں بٹھادیا گیا، گیارہ سال کی عمر میں ۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۴۹ء میںابتدائی دینی تعلیم کی تکمیل کی ۔
اعلیٰ تعلیم کیلئے یکم محرم الحرام ۱۳۶۱ھ کو جامعہ مظاہر علوم میں باقاعدہ داخلہ لیا اورحفظ وکریماوغیرہ کا امتحان دے کر مفتاح القواعد ، املاء ،حساب وغیرہ پڑھنے کے بعدمیں۱۳۶۲ھ میں میزان الصرف اورمنشعب ،بوستاں،انشاء خلیفہ مالابدمنہ، ، احسن القواعد، گلستاں باب ہشتم،وغیرہ پڑھیں۔
۱۳۶۳ھ میںصرف میر،پنج گنج ،علم الصیغہ ،نحومیر،شرح مأۃ عامل ،فصول اکبری ،تیسیرالمنطق،انشاء دلکشا، رقعاتِ عالم گیری ،رقعات امان اللہ حسینی اورپندنامہ وغیرہ ۔
۱۳۶۴ھ میںہدایۃالنحو،مراح الارواح،ایساغوجی،مرقات ،کافیہ،نورالایضاح،مفیدالطالبین،تہذیب اور شرح تہذیب۔
۱۳۶۵ھ میںبحث فعل ،المختصرالقدوری ،تصدیقا ت ،نفحۃ الیمن ،الفیہ ابن مالک ، ترجمہ قرآ ن کریم اورمیر قطبی پڑھیں۔
۱۳۶۶ھ میں اصول الشاشی ،خلاصۃ البیان ،تلخیص المفتاح،ہدیہ سعیدیہ ،مقدمہ جزری ،کنزالدقائق ، بحث اسم اورسلم العلوم پڑھنے کا شرف حاصل کیا ۔
۱۳۶۷ھ میں سبعہ معلقہ ،رشیدیہ ،شاطبی ،نورالانوار،مقامات حریری ،شرح وقایہ اورمختصرالقدوری ۔
۱۳۶۸ھ میں علم فرائض کی مشہورکتاب سراجی ،شرح نخبۃ الفکر،مقدمۂ مشکوٰۃ ،ہدایہ اولین ،مشکوٰۃ شریف اورجلالین شریف پڑھیں۔
۱۳۶۹ھ میں بخاری شریف ،مسلم شریف ،ترمذی شریف ،ابوداؤد شریف ،نسائی شریف،طحاوی شریف ، ابن ماجہ شریف ،مؤطاامام مالک ؒاورمؤطاامام محمدؒپڑھ کراول نمبرات سے کامیابی حاصل فرمائی۔
آپ ؒ نے بخاری شریف ابتداء سے کتاب العلم تک اوربخاری شریف کی جلدثانی استاذ الکل حضرت مولاناسید عبد اللطیف پورقاضویؒ سے بخاری شریف کتاب الوضوء سے جلداول ختم تک اورابوداؤد شریف حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ ،طحاوی شریف اورنسائی شریف حضرت محمداسعد اللہ صاحبؒ سے ،ترمذی شریف اپنے والد ماجد حضرت مفتی سعید احمد صاحب سے اورمسلم شریف حضرت مولانامنظوراحمدخان صاحبؒ سے پڑھنے کاشرف حاصل کیا ۔
آپ کے درجہ تکمیل علوم کے خصوصی رفقا ء میں مولانامحمدیعقوب رنگونی ،مولاناعبد الغنی امیر جماعت مرکز احمدآباد ،مولانا عبد الغنی رنگونی،مولاناحافظ فضل الرحمن کلیانوی ،مولانامحمدظفرنیرانوی ،مولاناخیر الرحمن احمد آبادی لائق ذکر ہیں ۔
درس نظامی سے فراغت کے بعددرجہ تکمیل علوم میں ۱۳۷۰ھ میں داخلہ لیا اورہدایہ ثالث ،تفسیرمدارک التنزیل ،ملاجلال ، عروض المفتاح ، مقدمہ تقریب ، الاتقان فی علوم القرآن ،مقدمہ قاموس ،درمختار،مبیذی ،رسم المفتی،ملاحسن اوربیضاوی شریف پڑھ کر امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ۔
آپؒ نے استاذ الکل حضرت مولانا سید عبد اللطیف صاحب پورقاضویؒسے مندرجہ بالا کتابوں کو پڑھنے کے علاوہ مقدمہ التقریب ،مقدمہ القاموس،درمختار للحصکفی کا کچھ حصہ اورعلامہ سیوطیؒ کی الاتقان سے پڑھنے کا شرف حاصل کیاتھا۔
فقیہ الاسلام ؒ نے۱۳۷۰ھ میںمظاہرعلوم سے فراغت پائی تو ارباب مدرسہ نے آپ کا بحیثیت مدرس تقررفرمالیااس سال آپ ؒ کی فقہی مہارت اورافتاء سے ذوق ومناسبت کی بناء پر مختصرالقدوری کا درس سپرد کیا گیاپھر مزیدآپ کی صلاحیتوںمیں ابھارااورلیاقتوںمیں نکھارکے لئے کنزالدقائق کا سبق بھی متعلق کردیا گیا ،درس وتدریس کابالکل نیا نیا تجربہ ، ہندوستان کے عظیم دینی وتعلیمی ادارے میں در س ،آسمان علم وفضل کے متعددآفتاب وماہتاب موجود ، آپ کی کم عمری اورآپ کی عمر وجسامت سے بھی بڑھے ہوئے شاگرد،ان تمام وجوہات کی بناپر اولاً آپ پرمرعوبیت کااحساس غالب ہوگیا لیکن جس اندازمیں آپ کی تربیت ہوئی تھی اورجس پیمانے پر آپ نے کتابوں پر محنت کی تھی اس کا اثر یہ ہو اکہ چند ہی یوم میں مرعوبیت کاوہ احساس کا فورہوگیا اورآپ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے ۔
درس وتدریس کے ساتھ اپنے فقہی ذوق ووجدان کے باعث فقہ وفتاویٰ کی خدمات بھی انجام دیتے رہے اور۱۴/ربیع الاول ۱۳۷۵ھ کو معین مفتی کے عہدہ پر آپ کا تقررہوگیا (روداد۔۱۳۷۵ھ)
یکم ربیع الاول ۱۳۷۶ھ کو آپ ؒ نائب مفتی بنادئے گئے اورآپ کے سالانہ گریڈمیں اضافہ کیا گیا ۔
درس وتدریس کی مشغولیت اورمصروفیت کے باوجود میں دارالافتاء کا صدر مفتی مقررکیا گیا اورآپ نے فقہ وفتاویٰ کی خدمات کے ساتھ ساتھ علوم متداولہ کی مختلف کتب کادرس دیا جیسے کنزالدقائق ، شرح وقایہ ،مختصرالمعانی وغیرہ اس کے علاوہ جلالین شریف سات بار،علامہ مرغینانی کی کتاب ہدایہ چاربارپڑھائی۔
فقہ وفتاویٰ کی مشغولیت کیساتھ ساتھ ۱۳۸۱ھ میں مشکوٰۃ شریف کادرس متعلق ہوا پھر نسائی شریف ، ابن ماجہ شر یف اورمشکوٰۃ شریف ۱۳۸۳ھ میں پڑھایاپھراگلے سال ۱۳۸۴ھ میںعلامہ طحاوی ؒ کی شرح معانی الآثار، مشکوۃ شریف اورترمذی شریف کے اسباق متعلق ہوئے جن میں سے آخرالذکرکتاب سنن ترمذی اخیرکے چندسالوںکو چھوڑکر تاحیات پڑھاتے رہے تقریباًچالیس بارترمذی شریف پڑھانے کا آپ نے ریکارڈقائم فرمایاہے ۔
۱۳۸۴ھ میں آپ کے استاذحضرت مولاناامیر احمد کاندھلوی ؒ کے وصال کے بعد بخاری اور ابوداؤد شریف کے علاوہ دورہ ٔ حدیث شریف کی تمام کتابیںنہایت تحقیق وجانفشانی سے پڑھائیں بعد میں بخاری اورابوداؤدشریف بھی پڑھائی ۔
۹/دسمبر۱۹۸۸ء کی درمیانی شب میں جب بعض شرپسندعناصرنے مظاہرعلوم کو اپنی جارحیت کانشانہ بنایااورمدرسہ کے ایک وسیع احاطہ دارجدیدپر پی اے سی کی مدد سے غاصبانہ قبضہ کرلیا اوردورہ ٔ حدیث شریف کے بعض اساتذہ فریق مخالف کے ہم نواہوکرچلے گئے تو قبلہ فقیہ الاسلام ؒ نے بخاری شریف جلد ثانی (جس کوحضرت علامہ رفیق احمدؒپڑھاتے تھے )کے علاوہ تمام کتابیںنیزمشکوٰۃ شریف کا کچھ حصہ اہتمام وانتظام کی مصروفیتوںاورماحول کی ناخوش گواریوںکے با وجود نہایت وقار وسکینت اور اطمینان سے پڑھایا ا ور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہر کتاب کو اس کے نصاب تک پڑھا کر مظا ہر علوم کی تاریخ میںایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔
یکم رمضان ۱۳۸۵ھ میں آپ صدرمفتی کے عہدے پر فائزرہتے ہوئے نائب ناظم مقررہوئے اور۱۶/ رو پئے ترقی ماہانہ چار روپئے کے ساتھ ۶/شوال ۱۳۸۵ھ سے اورترقی گریڈسالانہ چار روپئے یکم ذی قعدہ ۱۳۸۵ھ سے آپ کی تنخواہ میں اضافہ ہوا اوراگلے سال سالانہ ترقی گریڈیکم رمضان ۱۳۸۶ھ سے چار روپے ماہوا رخصوصی طورپر آپ کے مشاہرہ میں بڑھائے گئے (رودادمدرسہ ۱۳۸۵ھ و۱۳۸۶ھ )
۱۵/ذی قعدہ ۱۳۸۸ھ میںاللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی اس مقدس سفر میں آپ کی والدہ ماجدہ بھی ساتھ تھیں،اس طرح حضرکے علاوہ سفرمیں بھی والدہ ماجدہ کی خدمت کاموقع ملا تقریباً تین ماہ حرمین شریفین میںحج وزیارت اورطواف کعبہ کے بعد ۲۵/صفرالمظفر۱۳۸۹ کو بخیروخوبی واپس سہارنپورتشریف لائے ۔
آپ ؒ کے پیرومرشداوراستاذ گرامی حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد اسعداللہ صاحب ؒ ۱۵/رجب المرجب ۱۳۹۹ھ دوشنبہ رات ایک بجے دارفانی سے دارجاودانی کی طرف رحلت فرماگئے توآپؒقائم مقام ناظم ومہتمم ہوگئے۔
اپنے بزرگوںکے دئے ہوئے اس بار امانت کو قبلہ فقیہ الاسلام ؒ نہ صرف سنبھالے رکھا بلکہ جو خدمت بھی آپ کے سپردکی گئی اس کا حق ادا فرمایاچنانچہ حضرت اقدس مولانامحمدزکریاصاحب ؒ کی مؤمنانہ فراست اورایمانی بصیرت نے فقیہ الاسلام ؒ ہی کو اس گرانبارامانت کاسب سے اچھااوربہترامین سمجھتے ہوئے آپ کیلئے عہدہ ٔ انتظام کو بایں تحریرخاص کردیا ۔
’’حضرت مولانااسعد اللہ صاحب ؒ ناظم مدرسہ کے انتقال کو تقریباً ۱۷/ماہ گذرچکے ہیں ان کی جگہ جناب مفتی مظفرحسین صاحب بطورقائم مقام نظامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔بعد غوروخوض قرار پایا کہ یہ عہدہ مستقل طورپرمفتی مظفرحسین صاحب کے سپر د کردیا جائے ۔نائب ناظم اورناظم کی بنیادی تنخواہ کاجو ایک سو روپیہ کا فر ق ہے وہ یکم محرم ۱۴۰۱ھ سے حضرت مفتی مظفرحسین صاحب کی موجودہ تنخواہ میں شامل کردیا جائے ‘‘
بہرحال بزرگوں کے اس حسن انتخاب کے بعد۱۴۰۰ھ کی رودادمیںآپ کے نام کے ساتھ قائم مقام ناظم اعلیٰ اور۱۴۰۱ھ سے ناظم مدرسہ لکھاجانے لگا ۔
حضرت فقیہ الاسلام کو چونکہ استاذ گرامی حضرت مولانا محمدزکریا صاحب مہاجرمدنی ؒ سے بے پناہ محبت اورعقیدت تھی ،اس لئے آپؒ سے بیعت وارادت کا رشتہ استوارکیا لیکن آپ کا مزاج تھانوی رنگ سے ہمرنگ تھا جبکہ استاذ محترم کے یہاں خلیلی ورشیدی کاابرباراںبرستاتھا ،اس لئے اپنے مشفق وکرم فرماحضر ت مولانا شاہ محمد اسعد اللہ صاحبؒکے دربارگہربارمیں پہنچ کرتمغہ ٔ خلافت واجازت حاصل کیا۔
فقیہ الاسلام ؒ سے مرشد گرامی کو جو محبت اورخصوصی شفقت تھی اس کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت فقیہ الاسلام خمخانہ اسعدی کے جرعہ نوشوںمیں شامل ہوئے تو دستوریہ ہے کہ طالب وسالک خوش ہوتا ہے لیکن یہاںسارامعاملہ برعکس تھا ،حجۃ الاسلام مولانامحمد اسعد اللہ صاحبؒ اپنے شاگردرشید کو خلافت دیکر نہایت مسرور وشاداں تھے اورخلافت بھی مجمع عام میں عطا فرمائی تاکہ دنیا کو فقیہ الاسلام ؒ کی اسخوبی کا بھی پتہ چل جائے ،یہی نہیں حضرت مرشد گرامی کی خوشی کااس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے مصاحبین اورحاضرین کو مخاطب کرکے فرمایاکہ
’’شیخ الحدیث (حضرت مولانامحمد زکریا) صاحب ؒ(اس وقت شیخ الحدیثؒ مکہ مکرمہ میںتھے ) کو اس کی اطلاع کردوکہ میں نے آج مفتی مظفرحسین صاحب کو اجازت بیعت وخلافت دید ی ہے ‘‘
۲۸/رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ کی صبح ۱۰/بجے دہلی کے ایسکورٹ ہاسپٹل میںحرکت قلب بندہوجانے کی وجہ سے حضرت فقیہ الاسلام کاوصال ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانامحمدسعیدی کی امامت میں رات تقریباًبارہ بجے نمازجنازہ اداکی گئی جس میں محتاط اندازہ کے مطابق تین لاکھ کامجمع تھا۔
تدفین قبرستان حاجی شاہ کمال الدین میںاپنے والدماجداورحضرات اساتذہ کرام کے جوارمیں ہوئی۔