mazahiruloom@gmail.com 9045818920

رمضان المبارک و عیدالفطر

احکام رمضان المبارک و عیدالفطر

ڈاؤنلوڈ پی ڈی ایف

فضائل رمضان المبارک

رمضان المبارک کی آمدمسلمانوں کیلئے نویدجانفزااور برکتوں اوررحمتوں کاایک خزانہ ہے ۔ حضورا فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کی پہلی رات کو شیاطین مقیداورجہنم کے دروازے بندکردئے جاتے ہیںاور جنت اوررحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔
اس مبارک مہینہ کی اہم ترین عبادت روزہ ہے ،روزہ کی حقیقت صبح صادق سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ کھانا پینااور صحبت چھوڑدیناہے ۔
جو شخص محض اللہ کے واسطے روزہ رکھتاہے گذشتہ گناہ اس کے معاف کردئے جاتے ہیں ، اور روزہ دار کے منھ کی بو کی (قدروقیمت ) خداوندتعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ محبوب ہے ، اور روزہ دارکواللہ تعالیٰ اپنے دست ِ قدرت سے ثواب عطافرمائیں گے ، اور جنت میں روزہ رکھنے والے کے داخل ہونے کیلئے ایک خاص دروازہ ہے جسکانام ریّان ہے اورروزہ نہ رکھنے والے کیلئے یہ عذاب کیاکم ہے کہ اس کے مالک وخالق اللہ تعالیٰ اس کے اس فعل بدسے سخت ناراض وناخوش ہوتے ہیں اورفرشتوں اورنیک بندوںکی محفلوں میں مذمت اوربرائی سے اس کو یاد کیاجاتا ہے ، اورجس جگہ رمضان کے دن میںروزہ نہ رکھنے والاکچھ کھاتاپیتاہے ، قیامت کے دن وہ جگہ گواہی دے گی کہ اس نے میری پیٹھ پر گناہ کیاتھا،اسلئے مسلمانوںکو لازم ہے کہ روزہ ٔرمضان کی قدرکریںاور اس سے غفلت کرکے اپنے لئے نقصان دنیوی اورخسرانِ اخروی کاسامان مہیانہ کریں۔

روزہ کی فرضیت

ر وزہ کی فرضیت قرآن وحدیث اوراجماعِ امت سے ثابت ہے اس کی فرضیت کا منکر کافرہے ، اور اس کوبلاعذر ترک کرنے والاسخت گنہگار اور فاسق ہے ۔

روزہ کی نیت

روزہ کیلئے زبان سے نیت کرناضروری نہیں ہے ،صرف دل سے یہ ارادہ کرلینا کہ آج میراروزہ ہے کافی ہے ،اگر زبان سے بھی اردومیں یہ کہہ دے کہ کل روزہ رکھوںگا یاعربی میں بِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ کہہ لے تو بہترہے ، اگر بلانیت کے کوئی شخص بھوکاپیاسا رہے اور صحبت بھی نہ کرے توروزہ نہ ہوگا، روزہ کا وقت صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے ، رمضان کے روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے بہتر ہے اوراس کے بعد بھی دوپہرسے احتیاطاً ایک گھنٹہ پہلے تک کی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ کچھ کھایاپیانہ ہواورہم بستری بھی نہ کی ہو ۔

جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا

(۱) بھول کر کھاناپینا اورصحبت کرنا۔
(۲) مسواک کرنا۔
(۳) خو د بخود قے آنا۔
(۴) خوشبوسونگھنا۔
(۵) بلاقصد حلق میں گردغبار، مکھی،مچھرچلاجانا۔
(۶) سر یامونچھوں پر تیل لگانا۔
(۷) احتلا م ہونا۔
(۸) آنکھ میں سرمہ یا دوایا پانی ڈالنا۔
(۹) تھوک اوربلغم نگلنا۔
(۱۰) منھ بھرسے کم قصداً قے کرنا۔
(۱۱) پان کی سرخی غرغرہ کے بعدرہنا۔
(۱۲) رات کے وقت صحبت کرکے صبح صادق سے قبل نہ نہانا۔
(۱۳) انجکشن لگوانا۔

جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتاہے

(۱) ناک یا کان میںدواڈالنا۔
(۲) قصداًمنھ بھرکے قے کرنا۔
(۳) کلی کرتے وقت حلق میں پانی چلاجانا۔
(۴) ناس لینا۔
(۵) حقنہ کرانا، کنکر، پتھر، لوہا وغیرہ کھانا۔
(۶) غلطی سے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا روزہ کھولنا۔
(۷) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد کھانا۔
(۸) لوبان وغیرہ کی دھونی سونگھنا۔
(۹) سگریٹ اور حقہ پینا،پان تمباکو کھانا۔
(۱۰) جس تھوک میں غالب خون کی آمیزش ہو اس کونگل جانا۔
(۱۱) پا خانہ کی جگہ میں دوا استعمال کرنا، پیشاب کی جگہ میں دوا استعمال کرنے سے عورت کاروزہ ٹوٹ جاتاہے مردکانہیںٹوٹتا، دانتوںمیںجو گوشت کاریشہ پاچھالی وغیرہ کا ٹکڑا رہ گیاہے اس کو منھ سے باہرنکال کر کھالیاتو روزہ ٹوٹ گیا، اور اگراندرہی اندرزبان سے نکال کر نگل گیاتو اگر چنے کے برابریااس سے زائدہوتوروزہ فاسد ہوجائے گا،ورنہ نہیں،اگرقصداً روزہ توڑدیا تو اس پرقضا اور کفارہ دونوں واجب ہوںگے اور اس کاکفارہ یہ ہے کہ دومہینے کے متواتر روزے رکھے ، بیچ میں ناغہ نہ ہو، ورنہ پھرشروع سے ساٹھ روزے پورے کرنے پڑیں گے ، اوراگر روز ے رکھنے کی طاقت نہ ہو توسا ٹھ مسکینوںکو صبح وشام پیٹ بھرکرکھانا کھلائے یاساٹھ مسکینوںمیں سے ہرایک کو صدقۂ فطرکے برابر اناج یااس کی قیمت دیدے ۔

روزہ کے مکروہات

(۱) بلاضرورت کسی چیزکو چبانایا نمک وغیرہ کو چکھ کر تھوک دینا۔
(۲) منجن یا کوئلے سے دانت صاف کرنا ۔
(۳) تمام دن حالت جنابت میں بغیرغسل کے ر ہنا ۔
(۴) فصدکرانا۔
(۵) غیبت کرنا،یہ ہر حال میں حرام ہے ،روزہ میں اسکاگناہ اوربڑ ھ جاتا ہے ۔
(۶) روزہ میں لڑناجھگڑنا،گالی دینایہ سب روزہ میںمکروہ ہیں ،البتہ ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

و ہ عذر جن کی وجہ سے رمضان کا روزہ نہ رکھناجائزہے

(۱) بیماری کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہ ہویامرض بڑھنے کا شدید خطرہ ہو تو روزہ نہ رکھناجائزہے بعد رمضان اس کی قضا لازم وضروری ہے ، اگر بیماری وغیرہ کی وجہ سے کسی بھی موسم میں موت تک اس کی ادائیگی پرقدرت نہ ہو تو فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس کے ذمہ واجب ہے ۔
(۲) جو عورت حمل سے ہواور روزہ میں بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہونچنے کا قوی اندیشہ ہوتوروزہ نہ رکھے بعد میں قضاکرے ۔
(۳) جو عورت اپنے یا کسی کے بچے کو دودھ پلاتی ہے اگر روزہ سے بچہ کو دودھ نہیں ملتا،تکلیف پہنچتی ہے تو روزہ نہ رکھے پھرقضاکرے ۔
(۴) مسافرشرعی (جو کم از کم اڑتالیس میل کے سفرکی نیت پر گھرسے نکلاہو) کیلئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن اگر تکلیف ودقت نہ ہو توافضل یہی ہے کہ سفرہی میں روزہ رکھ لے ، اگر خوداپنے آپ کو یااپنے ساتھیوںکو اس سے تکلیف ہوتوروزہ نہ رکھناہی افضل ہے۔
(۵) بحالت روزہ سفرشروع کیاتو اس روزہ کاپورا کرنا ضروری ہے ، اگرکچھ کھانے پینے کے بعدسفر سے وطن واپس آگیا تو باقی دن کھانے پینے سے احتراز کرے۔
(۶) کسی کو قتل کی دھمکی دے کرروزہ توڑنے پرمجبور کیا جائے تو اس کیلئے توڑ دینا جائزہے پھرقضاکرلے ۔
(۷) کسی بیماری یا بھوک پیاس کا اتناغلبہ ہوجائے کہ کسی مسلمان دیندار ماہر طبیب یاڈاکٹرکے نزدیک جان کا خطرہ لاحق ہوتوروزہ توڑدینا جائز بلکہ واجب ہے اورپھر اس کی قضالازم ہوگی۔
(۸) عورت کیلئے ایام حیض میں اوربچہ کی پیدائش کے بعدجو خون آتاہے یعنی نفاس اس کے دوران میں روزہ رکھنا جائزنہیں ،ان ایام میں روزہ نہ رکھے بعد میں قضا کرے ۔

سحروافطار

سحری کھانا سنت ہے،اگر بھوک نہ ہوتب بھی دوایک چھوارے کھالے یاکم ازکم پانی ہی پی لے، سحری دیرکرکے کھاناسنت ہے مگراتنی دیرنہ کرے کہ وقت میں شک ہوجائے ۔
آفتاب کے غروب ہونے کایقین ہوجانے کے بعدفوراً روزہ کھولنامستحب ہے اور دیرکرنامکروہ ہے ، البتہ ابرکے دن افطارمیںدیراورسحری میں جلدی کرنی چاہئے ، اورافطارکے وقت اگرممکن ہوتو اس قدر کھاپی لے کہ شدت اشتہاء میںکمی ہوجائے اور نماز خشوع وخضوع سے پڑھی جائے ، امام کو چاہئے کہ مغرب کی نمازمیںبہت جلدی نہ کرے بلکہ مقتدیوںکی قدرے رعایت مناسب ہے تاکہ سب لوگ اطمینان سے کلی وغیرہ سے فارغ ہوکرشریک جماعت ہوسکیں، چھوارے یاکسی اور میٹھی چیزسے روزہ افطارکرنابہتر ہے، ورنہ پانی یاکسی اورچیزسے افطار کرے،بعض عورتیں اورمرد نمک سے افطارکرنے میںثواب سمجھتے ہیں یہ غلط ہے ۔
افطارکے وقت یہ دعاپڑھنامسنون ہے ۔اَللّٰھُمّ لَکَ صُمْتُ وَعَلیٰ رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔

مسائل تراویح

ر مضان شریف کی راتوںمیں عشاء کے فرض نمازکے بعد بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ، تراویح میںایک مرتبہ کلام اللہ پڑھنایاسننابھی سنت ہے ، اوریہ دونوںجداجدا سنتیں ہیں، اسلئے جولوگ چندراتوںمیںایک کلام پاک سن کر تراویح چھوڑدیتے ہیںان کی ایک سنت تو ادا ہوگئی دوسری ادا نہیں ہوئی ،کسی جگہ حافظ قرآن سنانے والانہ ملے یاملے مگر سنانے پر اجرت ومعاوضہ طلب کرے تو اَلَمْ تَرَ کَیْفَ سے تراویح اداکرلیں،اجرت دے کرقرآن نہ سنیں،کیونکہ قرآن سنانے پراجرت لینااور دیناحرام ہے ۔
تراویح فرض عشاء سے قبل درست نہیںہے ،اسلئے جو شخص مسجدمیں بعد جماعت نماز فرض آئے اس کو فرض پڑھ کر تراویح میںشریک ہوناچاہئے اور جس قدرتراویح ہوچکی ہوںان کو بعدمیں یاجلسۂاستراحت میں ادا کرے،البتہ وِترتراویح کے بعداور قبل دونوں طرح جائزہے ، اسلئے جس شخص کے ذمہ کچھ تراویح باقی ہیں اس نے وِترامام کے ساتھ پڑھ کرتراویح بعد میںاداکیںتو کوئی حرج نہیں،تراویح میں قرآن کواس قدر جلدی پڑھناکہ حروف کٹ جائیںبڑاگناہ ہے ،اس صورت میں نہ امام کوثواب ہوگانہ مقتدی کو۔نابالغ کو تراویح میںامام بناناجائزنہیں۔جتنی دیرمیںچار رکعت تراویح پڑھی جائیں اتنی ہی دیرہرچاررکعت کے بعد بیٹھنا مستحب ہے ،خواہ دعااور درود پڑھے یاخاموش رہے ، ہاں اگر نمازیوںکی گرانی اور جماعت کی کمی کا اندیشہ ہوتواس سے بھی کم بیٹھنادرست ہے ، لیکن مقتدیوںکی جلدی اور گرانی کے باعث تسبیحات ،رکوع وسجود،سبحانک اللّٰھم اوردرودچھوڑنابالکل درست نہیں ،البتہ دعاؤں کے چھوڑنے میں بشرطیکہ مقتدیوں کو جلدی ہوچنداںمضائقہ نہیں، اورختم قرآن شریف کے دن زائدروشنی کرنااور جھنڈیاں وغیرہ لگانا یہ سب اسراف اورناجائزامورہیں،اورشیرینی تقسیم کرنے کیلئے جبراًچندہ لینا اور تقسیم کے وقت مسجدمیں شوروشغب کرنا اورتقسیم کوضروری اورلازمی سمجھنااورتقسیم نہ کرنیوالوںپرلعن وطعن کرنایہ سب امورشرعاً ناجائز ہیں۔

تراویح میں قرآن شریف پڑھنے کے مسائل

قرأت میں کسی کلمہ کی زیادتی وکمی سے اگرمعنی ٰ بالکل بدل جائیں تو نمازفاسد ہو جاتی ہے ، جیسے فَمَالَھُمْ لاَیُومِنُون میں لَاکو چھوڑدیا،اگرمعنیٰ نہ بدلیںتونماز فاسد نہیں ہوتی ، جن حروف میں امتیازمشکل سے ہوتاہے وہ ایک دوسرے کے بجائے پڑھے جائیںتو فاسد نہیںہوتی جیسے سین ، صاد،ضاد، ظا،زال وغیرہ اور جن میںامتیاز سہل ہے وہ اگرایک دوسرے کی جگہ پڑھے جائیںاور معنیٰ بالکل بدل جائیںتونماز فاسد ہوجاتی ہے جیسے اگرصالحات کی جگہ طالحات پڑھا گیاتو نماز فاسد ہوجائے گی،اور تبدیل الفاظ میںاگرمعنیٰ بالکل بدل جائیںتو نمازمیںفسادیقینی ہے ۔ورنہ نہیں،جیسے علیم کی جگہ خبیروحفیظ وغیرہ پڑھاگیا تو نماز درست ہے اوروَعْداً عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنْ کی جگہ غَافِلِیْن پڑھنے سے نمازفاسدہوجاتی ہے اور دوجملوںکے تبدیل الفاظ میںاگر معنیٰ بھی بدل جائیںتو نمازفاسدہے ،اِنَّ الاَْبْرَارَ لَفِی نَعِیْم وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیْممیںجحیمکی جگہ نعیم اورنعیم کی جگہ جحیم پڑھنے سے نمازفاسدہوجاتی ہے ،اگر معنی ٰ نہ بدلیں جیسے لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْر وَشَھِیْق میں شھیق وزفیر پڑھا تو نمازدرست ہے ۔

اعتکاف

رمضان شریف کے آخردس دن کااعتکاف کرناسنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے اگر محلہ میں سے ایک آدمی بھی معتکف ہوجائیگا توتمام لوگ بری الذمہ ہوجائیں گے ورنہ سب کے سب تارکِ سنت وگنہگار ہوںگے،مردکے (اعتکاف کیلئے) مسجدجماعت ہوناضروری ہے اورعورت اپنے گھرمیںایک خاص جگہ مقرر کرکے اعتکاف کرے اور نیت کاہونااورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے اگردرمیان میں حیض آجائے یا بچہ پیداہوجائے تو اعتکاف چھوڑدے ،اعتکاف میں صحبت کرنا،بوسہ لینا،لپٹنا وغیرہ بھی درست نہیں ۔ مردکومسجدسے اورعورت کواعتکاف کی جگہ سے بلاضرورت نکلنادرست نہیں ، بلاضرورت اعتکاف کی جگہ سے نکلنامفسداعتکاف ہے ،یعنی جن دنوںمیں اعتکاف ہوچکاہے وہ درست رہا،باقی دنوںکا نہیں ، ہاں ضرورت طبعی وشرعی (جیسے پیشاب پاخانہ وغیرہ اور نماز) کی وجہ سے باہرنکلنا درست ہے ، جمعہ کی نمازکے لئے اتنا پہلے جائے کہ وہاں جاکرتحیۃ المسجداور جمعہ کی سنت پڑھ لے اور بعدکی سنتیں بھی وہاںٹھہرکر پڑھنا جائز ہے ، بھو لکر یاجان کر جماع وغیرہ کرنا مفسداعتکاف ہے اس میںنسیان معتبرنہیں ، حالت ِ اعتکاف میںبالکل چپ رہنامکروہ ہے البتہ فضول باتیں نہ کرے بلکہ تلاوت کلام اللہ یاکسی اورعبادت میں مشغول رہے۔

احکام عیدالفطر

(۱) عیدالفطرکے روزدورکعت نمازبطورشکریہ پڑھنا واجب ہے۔
(۲)عیدکا وقت سورج کے ایک نیزہ بلندہونے کے بعد سے زوال آفتاب تک ہے۔
(۳) عیدالفطر کی نمازکایہ طریقہ ہے کہ پہلے نیت کرے کہ میں دو رکعت نمازواجب عید الفطر مع چھ تکبیروںکے پڑھتا ہوں،اس کے بعدتکبیرتحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور سبحانک اللّٰھم پڑھ کرتین مرتبہ اللہ اکبر کہے اورہرمرتبہ مثل تکبیرتحریمہ کے دونوں ہاتھ کانوںتک اٹھائے اور بعد ہرتکبیر کے ہاتھ چھوڑدے اورہرتکبیرکے بعداتنی دیر توقف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ سکیں،اگر زیادہ مجمع کی وجہ سے اس سے کچھ زیادہ توقف ہوجائے تو کوئی حرج نہیں اور تیسری تکبیرکے بعدہاتھ نہ چھوڑے بلکہ ہاتھ باندھ لے ، اس کے بعد امام اعوذباللہ بسم اللہ پڑھ کر سورہ ٔفاتحہ اورکوئی دوسر ی سورت پڑھے اور مقتدی حسبِ دستور خاموش رہیں، سورت کے بعدرکوع وسجودکرکے امام کھڑا ہوجائے اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ ٔفاتحہ اور سورۃ پڑھے اس کے بعد تین تکبیریںاسی طرح کہے ، لیکن یہاںتیسری تکبیر کے بعدہاتھ نہ باندھے بلکہ چھوڑے رکھے ،اورپھرچوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے ۔
(۴)عیدکا خطبہ سنناواجب ہے۔
(۵)اگرعید کی نمازسب پڑھ چکے ہوںتو تنہاایک آدمی نہیں پڑھ سکتا۔
(۶) اگرکسی کی ایک رکعت نما زچلی جائے تو وہ جب اس کو اداکرنے لگے تو پہلے قرأت پڑھے اوراس کے بعد تکبیریںکہے۔
(۷) اگرکوئی شخص نمازعیدمیںایسے وقت شریک ہوکہ امام حالت ِ قیام میں تھا اور تکبیروںسے فارغ ہوچکاتھاتو فوراً نیت باندھ کرتکبیریں کہہ لے۔ اگررکوع میں اس نے امام کو پایا تو اگر غالب گمان یہ ہوکہ تکبیروںکی ادائیگی کے بعد رکوع مل جائیگاتو نیت باندھ کرتکبیریں کہہ لے، ورنہ بحالت رکوع بجائے تسبیح کے تکبیریں ہاتھ اٹھائے بغیرکہے اور اگرابھی تکبیروںسے فراغت نہیں ہوئی تھی کہ امام نے سراٹھالیا تو یہ بھی کھڑاہوجائے اور جوتکبیریں رہ گئیں وہ معاف ہیں۔

مسنونات عیدالفطر

(۱)شرع کے مطابق آرائش کرنا۔
(۲)مسواک کرنا ۔
(۳) غسل کرنا۔
(۴) حسبِ استطا عت عمدہ اورجائزکپڑے پہننا ۔
(۵)خوشبولگانا۔
(۶)صبح سویرے اٹھنا۔
(۷)عیدگاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیزمثل چھوارے وغیرہ کے کھانااگرکوئی عذر نہ ہوتوعیدگاہ میں نمازپڑھنا
(۹)ایک راستہ سے جانا دوسرے راستہ سے واپس آنا۔
(۱۰)پیادہ پاجانا
(۱۱) راستہ میں آہستہ آہستہ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبرلا الہ الااللّٰہ واللّٰہ اکبراللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمدکہتے ہوئے جانا۔

صد قہ ٔ فطر

جس شخص کے پاس اتنامال ہوکہ ضروری سامان کے علاوہ اس مقدارکو پہونچ جائے جس پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس پر صدقۂ فطرواجب ہے اگرچہ سال پورانہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ،عیدالفطرکے دن صدقہ ٔفطر کے وجوب کیلئے مال مذکورکاہوناکافی ہے ، سال گذرناشرط نہیں، زکوٰۃ اورصدقہ ٔفطرمیں یہی فرق ہے ، صدقۂ فطر مرد پر اپنی اوراپنی نابالغ اولاد کی طرف سے اداکرنا واجب ہے اور اگر اولاد مالدارہوتواس کے مال سے اداکرے باپ کے مال میں واجب نہیں،صدقہ ٔفطرعید کی صبح صادق کے وقت واجب ہوتا ہے۔اس لئے جو بچہ اس کے بعد پیداہوا اور جو شخص اس کے قبل مرجائے ان دونوں پر صدقہ ٔفطر واجب نہیں ہے ۔

صد قہ ٔ فطرکی مقدار

صدقہ ٔفطرکی مقدارایک کلوچھ سواکسٹھ گرام (۶۶۱۔۱) گیہوںیااس کاآٹاہے ، مگر احتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ کچھ زائد دیاجائے،اگرجویااس کاآٹادیوے تو اس سے دوچنددیوے، اوراگر گیہوں، جوکے علاوہ اورکوئی غلہ دے تو اس میں قیمت کا اعتبار ہے ، وہ غلہ اتناہوکہ قیمت کے لحاظ سے گیہوں اور جوکی مقدارواجب کے برابر ہوجائے اور اگرگیہوںجوکی قیمت لگاکردی جائے تواوربھی بہترہے ، صدقۂ فطر اگر عید کے دن ادانہ کرسکے توساقط نہیں ہوتابعدمیں اداکرناضروری ہے ۔

صد قہ ٔ فطرکے مصارف

صدقۂ فطران ہی لوگوںکو دیناچاہئے جو زکوٰۃ کے مستحق ہیںاوراپنے ماں باپ ، دادا،دادی، پردادا،نانا، نانی، پرنانا وغیرہ یعنی جن لوگوںسے پیداہواہے اوراسی طرح اپنی اولاد اوراولاد کی اولاداورجو اس کی اولاد میں داخل ہیںان سب کو صدقۂ فطر دینادرست نہیں ان کے علاوہ چچا،تایا، بھائی، بہن، بھتیجی،بھتیجے، بھانجے ، بھانجی ،پھوپا، پھوپی،خالہ، خالو، غرباء اور مساکین سب کو دینا درست ہے ،خواہ ایک ہی فقیرکو دیدے یاکئی کو تقسیم کردے دونوں جائز ہے ۔

زکوۃ

اکثرلوگ چونکہ رمضان شریف میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، اس لئے بعض ضروری مسائل زکوٰۃ کے بھی بیا ن کئے جاتے ہیں،زکوٰۃ بھی اسلام کا ایک رکن ہے لیکن اکثر مسلمان اس میں کوتاہی کرتے ہیںیا تو بالکل زکوٰۃ ادانہیں کرتے یا بہت کم اداکرتے ہیں، حضرت رسول اکرم انے فرمایا ہے کہ جس کے پاس سونا چاند ی ہواور و ہ اس کی زکوٰۃ نہ نکالتاہوتو قیامت کے روزآگ کی تختیوںکو دوزخ میں خوب گرم کرکے اس شخص کے دونوں پہلوؤں،پیشانی اورپیٹھ پرداغ دیا جائیگا اور فرمایاکہ جن کو اللہ تعالیٰ نے مال دیااوراس کی زکوٰۃ ادانہیں کی تو قیامت کے روزاس کامال ایک بڑا زہریلا گنجا سانپ بناکر اس کی گردن میں ڈالاجائے گا ،وہ اس کے دونوں جبڑوں کو نوچے گا اور کہے گاکہ میںتیرامال ہوں، تیراخزانہ ہوں، خداکی پناہ تھوڑی سی کنجوسی کی بدولت کتنا بڑاعذاب بھگتنا پڑے گا ۔اَللّـھُمَّ احْفَظْنَا ۔

چاندی سونے کانصاب

مال کی وہ خاص خاص مقداریںجن پر شریعت نے زکوۃ فرض کی ہے مثلاً چاندی کا نصاب دوسو(۲۰۰)درہم ہے جس کاوزن موجودہ گرام کے اعتبارسے ۶۱۲گرام ۳۵ملی گرام ہوتے ہیںاورسونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن موجودہ گرام کے اعتبارسے۸۷گرام ۹۷۹ملی گرام ہوتے ہیں ۔اس سے کم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جتناروپیہ یامال ہواس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میںاداکرناواجب ہے مثلاً سوروپیوں میںسے ڈھائی روپیہ نکالے اورپورا نصاب تمام سال رہنا ضروری نہیں بلکہ سال کے اول وآخرمیںنصاب کاباقی رہنا شرط ہے ،اگر بیچ میں کم ہوجائے توکچھ حرج نہیں ہاں اگر بیچ میں بالکل مال باقی نہ رہے اورپھراخیرسال میںمال بقدرِنصاب آجائے تو پھر جب سے دوبارہ حاصل ہوا ہے اس وقت سے سال کاحساب کیاجائے گا ، سونے چاندی کے زیور،برتن، سچاگوٹہ، ٹھپہ (اصلی زری سونے چاندی کے بٹن)سب پرزکوٰۃ واجب ہے، سوداگری کے مال کی قیمت اگر نصاب کو پہنچ جائے تواس پربھی زکوٰۃ واجب ہے ، زکوٰۃ ادا ہونے کے لئے مال نکالتے وقت یا فقیر کو دیتے وقت نیت کاہوناضروری ہے ۔

مسئلہ
کارخانے اورمل وغیرہ کی مشینوںپر زکوٰۃ فرض نہیں ، لیکن ان میں جو مال تیارہوتا ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے ،اسی طرح جوخام مال کا رخانہ میں سامان تیارکرنے کیلئے رکھا ہے اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے (درمختاروشامی)
مسئلہ
زکوٰۃ اداہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ جو رقم کسی مستحق زکوٰۃ کو دی جائے وہ اس کی کسی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو۔
مسئلہ
ادائیگی زکوٰۃ کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق زکوٰۃ کو مالکانہ طورپر دیدیجائے جس میں اس کو ہر طرح کااختیارہو،اس کے مالکانہ قبضہ کے بغیرزکوٰۃ ادانہ ہوگی۔
مسئلہ
کسی کے پاس کچھ روپیہ ،کچھ سونایاچاندی او رکچھ مال تجارت ہے لیکن علیحدہ علیحدہ بقدرنصاب ان میں سے کوئی چیزبھی نہیں ہے تو سب کو ملاکردیکھیں اگر اس مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابرہوجائے تو زکوٰۃ فرض ہوگی اوراگر اس سے کم رہے تو زکوٰۃ فرض نہیں ۔ (ہدایہ)
مسئلہ
مِلوںاورکمپنیوںکے شیئرزپربھی زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ شیئرز کی قیمت بقدرنصاب ہویا اس کے علاوہ دیگر ما ل مِلکر شیئرہولڈرمالک نصاب بن جاتاہو۔البتہ کمپنیوںکے شیئرز کی قیمت میںچونکہ مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ کی لاگت بھی شامل ہوتی ہے جو درحقیقت زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے ، اسلئے اگر کوئی شخص کمپنی سے دریافت کرکے جس قدر رقم اس کی مشینری اور مکان اور فرنیچروغیرہ میں لگی ہوئی ہے اس کو اپنے حصے کے مطابق شیئرزکی قیمت میں سے کم کرکے باقی کی زکوٰۃ دے تو یہ بھی جائزاور درست ہے۔سال کے ختم پر جب زکوٰۃ دینے لگے اس وقت جو شیئرز کی قیمت ہوگی وہی لگے گی۔ (درمختاروشامی)
مسئلہ
پرائیویڈنٹ فنڈجوابھی وصول نہیںہوااس پر زکوٰۃ فرض نہیں البتہ جب اس فنڈ کا روپیہ وصول ہوگااسوقت اس روپیہ پر زکوٰۃ فرض ہوگی بشرطیکہ وہ رقم بقدرنصاب ہویادیگرمال کے ساتھ ملکر بقدرنصاب ہوجاتی ہو ۔(امداد الفتاویٰ ص:۴۸ج۲)
مسئلہ
صاحب نصاب اگرکسی سال کی زکوٰۃ پیشگی دیدے تویہ بھی جائزہے البتہ اگر بعد میں سال پوراہونے کے اندرمال بڑھ گیاتو اس بڑھے ہوئے مال کی زکوٰۃ علیحدہ دینا ہوگی ۔(درمختاروشامی) جس قدر مال ہے اسکا چالیسواں حصہ دینافرض ہے یعنی ڈھائی فی صد مال دیا جائیگا سونے چاندی اور مال تجارت کی ذات پر زکوٰۃ فرض ہے اس کو دے اور اگر اس کی قیمت دے تو یہ بھی جائزہے مگرقیمت خرید نہ لگے گی ، زکوٰۃ واجب ہونے کے وقت جو قیمت ہوگی اس کا دینا ہوگا۔ (درمختارج۔۲)

مصارف ِزکوٰۃ

جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونا یا اتنی قیمت کاسوداگری کامال ہواس کو شریعت میں غنی اورمالدارکہتے ہیں ،ایسے شخص کو زکوٰۃ کاپیسہ دینااور اس کو زکوٰۃ کاپیسہ لیناجائزنہیں اور جس کے پاس اتنا مال نہیں بلکہ تھوڑامال ہے یا کچھ بھی نہیںاس کو غریب کہتے ہیں،ایسے شخص کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے اوراس کو لینابھی جائزہے ،اپنی زکوٰۃ اپنے ماں باپ ، دادا، دادی، پردادا، نانا، نانی، پرناناوغیرہ یعنی جن سے پیداہواہے اوراپنی اولادیعنی پوتے ، پرپوتے نواسے و غیرہ کو دیناجائزنہیں ان رشتہ داروں کے علاوہ بہن ، پھوپی ،خالہ ، ماموں، سوتیلی ماں، سوتیلاباپ ،سوتیلادادا، ساس اور خسروغیرہ او ر ان کی اولاد کو دینا جائزہے ، سیداور ہاشمیوں کو زکوۃدینا ناجائز ہے اورکسی کی تنخواہ مسجد کی ضروریات اور میت کے کفن میں بھی لگاناجائزنہیں ، اورایسے ہی کافر کو بھی دینا جائزنہیں ، زکوٰۃ کی تقسیم میں اختیارہے کہ ایک ہی شخص کو اپنی سب زکوٰۃ دیدے یا چند شخصوںکو دیدے مگرافضل یہ ہے کہ ایک شخص کو اتنا دے کہ ایک دن کیلئے کافی ہوجائے او رایک فقیرکو نصاب کی مقدارمال دینامکروہ ہے مگر یہ کہ وہ قرضدارہو تو پھرمکروہ نہیں۔



ضروری گزارش

مظاہر علوم (وقف)سہارنپورکسی تعارف کا محتاج نہیں ہے،دنیاکے مختلف خطوں اور علاقوں میں اسکے فضلاء وفارغین ، دینی ،تعلیمی اوردعوتی خدمات میںمصروف ہیں۔
مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ کی تعدادتقریباً ڈیڑھ ہزارہے جن میں سے اکثرکے طعام وقیام کی کفالت مدرسہ کے ذمہ ہے ، مختلف تعمیری کاموں اوراساتذہ وملازمین کے مشاہروں وغیرہ کے باعث گرانی کے اس دورمیںاس کے سالانہ مصارف ۵/کروڑ روپے ہیں ۔
مدرسہ کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے اورنہ ہی حکومت سے کوئی مدد لی جاتی ہے ، بفضلِ الٰہی اس کے جملہ اخراجات حضرات اہل خیر کے تعاون ہی سے پورے ہوتے ہیں۔
رمضان شریف میںہر امرخیر کااجراضعافامضاعفۃ ہوتا ہے ،حدیث شریف میں ہے جوشخص رمضان شریف میںنیک کام (نفل)کرتا ہے وہ ثواب اوراجر کے لحاظ سے اس شخص کے برابر ہے جو دوسرے مہینوںمیں فرض اداکرے اورجوشخص اس مہینہ میں فرض ادا کرتا ہے وہ اس شخص کے مانند ہے جودوسرے وقت میںستر فرض ادا کرے۔اس لئے اس وقت خصوصیت سے اس کی امداد کی طرف توجہ مبذول فرماکراجر عظیم حاصل فرمائیں ۔

ان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین ۔