mazahiruloom@gmail.com 9045818920

نظمائے مظاہرعلوم

(۴) مناظراسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ

حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒابن مولانا رشید اللہ ؒابن مفتی بشارت اللہؒ ابن مفتی محمدسعداللہ رام پوریؒ ابن مولانانظام الدین مردآبادی ؒشوال ۱۳۱۴ھ مطابق مارچ ۱۸۹۷ء ریاست رام پورمیں پیداہوئے ،تاریخی نام مرغوب اللہ اورچراغ علی ہے مگرمحمداسعداللہ سے پورے عالم میں مشہورہوئے۔
قرآن شریف اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھ کر کچھ عرصہ رام پور کے ایک سرکاری اسکول میں انگریزی تعلیم حاصل کی ۔
شوال ۱۳۲۹ھ کے آخر میں آپ اپنے چچا حکیم محمد فضل اللہ صاحب کے ساتھ رام پورسے تھانہ بھون تشریف لے آئے۔ یہاں پہنچ کر مولانا الحاج عبد اللہ صاحب گنگوہی سے تعلیمی رشتہ قائم فرمایا ۔ابتدائی عربی سے متوسط کتابوں تک آپ کے استاذ مولانا مرحوم رہے ۔ ترجمہ قرآن پاک اورمشکوۃ شریف حضرت اقدس تھانوی نوراللہ مرقدہٗ سے پڑھی ۔
تھانہ بھون کے زمانہ ٔ قیام میں آپ نے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ،حضرت مولاناشبیر علی ؒسے بھی متعدد کتابیں پڑھیں۔
۲۲/شوال ۱۳۳۳ھ میں آپ تھانہ بھون سے مظاہر علوم سہارنپورتشریف لائے ،یہاںمشکوۃ ،ہدایہ اولین مختصر المعانی ،سلم العلوم مقامات حریری ،ہدیہ سعیدیہ ،ملا حسن ،نخبۃ الفکر سے اپنی تعلیم کا آغاز فرمایا ۔
۱۳۳۴ھ میں دورہ ٔ حدیث میں داخلہ لے کر صحاح ستہ کی تکمیل فرمائی ۔کتب صحاح کے ساتھ جلالین شریف ،شر ح عقائد نسفی مع خیالی ،ملا جلال بھی پڑھی ۔کتب صحاح میں آپ کے اساتذہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب حضرت مولانا یحییٰ صاحب ، حضرت مولانا ثابت علی صاحب اورحضرت مولانا عبد اللطیف صاحب ہیں ۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی ؒ،حضرت مولانا خیر محمد مظفرگڑھی مہاجر مکی ؒبانی رباط منزل الخیر مدینہ منورہ ، حضرت مولانا عبد الغنی ؒسابق استاذ جامعہ مظاہر علوم سہارنپوروبانی مدرسہ مدینۃ العلوم رسولی ضلع بارہ بنکی،امام النحو والمنطق حضرت علامہ صدیق احمد کشمیری ؒ،اورمولانا محمد بخش صاحب ڈیرہ غازی خان (پاکستان )آپ کے دورۂ حدیث شریف کے خصوصی رفقاء میں سے تھے۔
۱۳۳۵ھ میں آپ نے درجہ ٔ فنون میں داخلہ لے کر پہلے سال بیضاوی ،مسلم شریف ،ہدایہ اخیرین ،سراجی ،حمدا للہ، قاضی مبارک ،میرزاہد ،توضیح وتلویح پڑھیں۔
اوردوسرے سال ۱۳۳۶ھ میں ابو داؤد اقلیدس ،صدر ا شمس بازغہ ،در مختار ،سبع شداد ،شرح چغمینی ،تصریح ،مسلم الثبوت پڑھ کردرس نظامی سے فارغ ہوئے۔
۱۳۳۷ھ میں آپ مظاہر علوم کے معین مدرس بنائے گئے ۔ایک سال بعد شوال ۱۳۳۸ھ میں پندرہ روپے مشاہرہ پر مستقل استاذ تجویز کئے گئے ۔اوراسی زمانہ میں آپ انجمن ہدایت الرشید کے ناظم بنے ،مظاہر علوم میں آپ نے تمامی علوم وفنون کی کتابیںپڑھائیں درجہ ابتدائی کے علاوہ درجہ اعلیٰ کی یہ کتابیں بھی بہت سی مرتبہ آپ کے یہاں ہوئیں ۔جلالین ،شرح عقائد خیالی ،امورعامہ ،خلاصۃ الحساب ،دیوان متنبی ،دیوان حماسہ ،توضیح تلویح ،صدر ا ،اقلیدس ،شمس بازغہ ،بیضاوی ،تفسیر مدارس ،ہدایہ رابع ،حمد اللہ ،رسم المفتی ۔
اہالیان برما کے مخلصانہ اصرار پر آپ ان کے یہاں دو مرتبہ تشریف لے گئے یہ دونوں سفر جامعہ راندیریہ رنگون کے ناظم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے کئے گئے ۔پہلا سفرربیع الثانی ۱۳۴۸ھ میں ہوا ، ایک سال وہاں قیام فرمایا،دوسراسفر ماہ صفر ۱۳۵۴ھ میں ہوا ،وہیںسے حج کے لئے تشریف لے گئے ۔حج وزیارت سے فارغ ہوکر آپ برما واپس ہوگئے ۔
یکم صفر ۱۳۶۵ھ میں آپ اپنی مادر علمی جامعہ مظاہر علوم سہارنپورکے نائب ناظم بنائے گئے اورحضرت مولانا عبد اللطیفؒ کے سانحہ ٔ ارتحال کے بعد یکم محرم الحرام ۱۳۷۴ھ میں آپ ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے ۔
۱۳۷۴ ھ سے ۱۳۸۵ھ تک آپ نے مظاہر علوم کے بار انتظام کو تن تنہا اٹھائے رکھا۔لیکن حضرت موصوف کے اعذا ر وامراض اورضعف وکمزوری کو دیکھتے ہوئے یکم رمضان المبارک ۱۳۸۵ھ کوحضرت مولانا الحاج مفتی مظفر حسین ؒکو مظاہر علوم کو نائب ناظم کاعہدہ تفویض کیاگیا ۔
مسلسل عوارض وعلالت کی وجہ سے ۱۳۸۹ء میں آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ بند فرمایا۔
آپ کی پوری زندگی علم وعمل اوراحیائے دین کے لئے قربانیاںدینے میں گزری ۔ریواڑی پنجاب ،راجپوتانہ ،متھرا ، آگرہ ،نوگانوہ وغیرہ میں آپ نے ارتداد اورشدھی کے سنگین اورہولناک زمانہ میں وہاں جاکر انجام دیں ۔
آپ نے اپنا اصلاحی تعلق حکیم الامت حضرت اقدس مولانااشرف علی تھانوی ؒسے قائم کیا،کثرت کے ساتھ تھانہ بھون حاضر ہوتے اوربعض مرتبہ طویل قیام کی نوبت آتی ۔
آپؒ کے اہم خلفاء میں تین اہم شخصیات بہت ہی مشہورومتعارف ہوئیں اوران سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے فروغ کابڑاکام لیا اُن میں ایک توعارف باللہ حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒ ہیں،دوسری عظیم شخصیت فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکی ذات گرامی ہے اورتیسری اہم ہستی شیخ طریقت حضرت مولاناعبداللطیف نلہیڑوی ؒکی ہے ۔
اِن تینوں حضرات سے علم وروحانیت کے وہ چشمے جاری ہوئے ہیں جن کا فیض اِن شاء اللہ تاقیامت جاری رہے گا۔
اِن حضرات کے علاوہ متعددافراد آپ کے فیض صحبت سے صاحب نسبت وتعلق ہوئے اور سب الحمد للہ مخلوق خدا کے لئے ذریعہ ٔ خیروبرکت بنے ہوئے ہیں ۔
آپؒبہترین مقرر،شاندارصاحب قلم انشاء پرداز،اردو،عربی اورفارسی کے قادرالکلام شاعرونثرنگار،بیباک مناظر، مقبول مدرس،محبوب ترین روحانی مرشداورمنبرومحراب کے عظیم الشان خطیب تھے۔
اسعادالنحو،تکمیل العرفان فی شرح حفظ الایمان،القطائف من اللطائف،رہبرحجاج،اسعادالطالبین،صحائف اسعد،کلام اسعد،مصباح الطحاوی،اسعادالاسعد،المکالمہ بینی وبین بعض المعقولیین،التحفۃ الحقیرہ،ہفت اختر،الحواشی علی الطحاوی،شرح التقصیرفی التفسیر،عروض باقافیہ،شرح حماسہ،آمین بالجہر،قراء ۃ فاتحہ خلف الامام،رفع یدین،شیعی تقیہ وغیرہ دودرجن سے زیادہ،ادبی،درسی اورعلمی کتابیں آپ نے بطورقلمی یادگارچھوڑی ہیں۔
آخر حیات میں مختلف عوارض وامراض کی وجہ سے ضعف وکمزوری بہت بڑھ گئی تھی حیات کے آخری دنوں میں عموماً دنیاوی امورسے انقطاع رہتا تھا اسی حالت میں ۱۴/۱۵رجب ۱۳۹۹ھ (۱۰/جون ۱۹۷۹ء )کی درمیانی شب میںوصال ہوا نماز جنازہ اگلے دن حسب وصیت فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒنے پڑھائی اور قبرستان حاجی شاہ کمال میں بانی مظاہرعلوم حضرت مولانامحمدمظہرنانوتوی ؒکے سرہانے نیزاستاذالکل حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضوی ؒکے دائیں جانب تدفین عمل میں آئی ۔