mazahiruloom@gmail.com 9045818920

نظمائے مظاہرعلوم

(۳) حضرت مولانا عبداللطیف پورقاضویؒ

حضرت مولاناسید عبد اللطیفؒ ابن مولانا جمعیت علیؒ ۱۸۷۹ء؁ بمقام قصبہ پورقاضی ضلع مظفرنگرپیداہوئے، والد ماجد صاحبِ علم وعمل شخصیت کے مالک تھے جن کی کئی پشتیں علمی، روحانی اور اصلاحی خدمات سے آراستہ چلی آرہی ہیں مولانا عبداللطیف نے قرآن پاک اپنے وطن کے نامور حافظ جناب امانت علیؒ سے حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم والد محترم مولانا جمعیت علی سے حاصل کی جو اس وقت بہاول پور میں تدریسی خدمات میں مشغول تھے بعد ازاں حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھوی کے ایماء پر مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے اور بقیہ جملہ درس نظامی کی تکمیل کی سعادت انہی بزرگوں کے زیر سایہ حاصل کی۔
آپ نے ۱۳۱۵ھ؁ میں مظاہر علوم میں داخلہ لیا اور ۱۳۲۲ھ؁ میں اعلیٰ نمبرات سے فراغت پائی دورانِ تعلیم بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ کی کتب حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ سے پڑھیں اور نسائی شریف مولانا عنایت علی سے پڑھی۔
۱۳۲۳ھ میں حضرت شاہ عبدالرحیم کی تجویز پر مظاہر علوم میں مسند درس سنبھالا اسی سال پہلی بار حج بیت اللہ کو گئے ۔
۱۳۳۳ھ میں حضرت سہارنپوریؒ کی روانگیٔ بیت اللہ کے موقع پر آپ کو از خود حضرت سہارنپوریؒ مدرسہ کا اہتمام سونپ گئے۔
۱۳۳۹ھ میں مدرسہ کی جملہ انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کیا گیا ان کے عہد نظامت میں مظاہر علوم نے جو ترقی کی وہ مظاہر علوم کی تاریخ کا روشن باب ہے،کتب خانہ کی عمارت کی تعمیر، جدید دار الاقامہ اور اس میں مسجد کی تعمیر اور دار التجوید کی عمارت خاص طور پر قابل ذکر ہیں،مظاہر علوم کی نظامت کے متعلق مدرسہ کی مجلس شوریٰ کی ایک تجویز مندرجہ ذیل ہے۔
’’ناظم ومہتمم تقریباً ایک چیز ہے پہلے سے بھی وہی کام جو اہتمام کا تھا ناظم صاحب کر رہے تھے، بمصالح نام مرحوم پر باقی تھا اب حافظ صاحب ناظم ومہتمم دونوں کے ساتھ موسوم ہوں تاکہ ڈاک وغیرہ جو مہتمم کے نام آتی ہے اس میں دقت نہ ہو اور حسب قانون مطبوعہ جو اختیارات مہتمم کے ہیں وہی حافظ صاحب کے ہیں البتہ دفتر میں مرحوم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک محاسب دیانت دار کا اضافہ ضروری ہے‘‘۔
چنانچہ آپؒ کو زمام اہتمام بھی سونپی گئی اس طرح پر کہ دو نائب ایک مالیات کا دوسرا تعلیمات کا علیحدہ علیحدہ ہو اور دونوں آپؒ کی زیر نگرانی اپنے متعلقہ امور انجام دیں۔
مولانا عبداللطیف ؒ نے نہ صرف مظاہر علوم کے منصبِ اہتمام کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئے بلکہ مسند درس کو بھی اپنی علمی صلاحیتوں سے جلا بخشی آپ کا بخاری وترمذی شریف جیسی بڑی کتابوں کا درس بہت مقبول تھا نیز دورانِ درس ہزاروں طلبہ نے اپنی علمی تشنگی بجھائی یہ وہ شاگرد وطالبعلم تھے جن کے فیوض و برکات آج بھی روئے زمین پر ظاہر ہیں، اس پچاس سالہ طویل علمی سفر میں نہ معلوم کتنے مسافرانِ علم وعمل نے آپ سے کسبِ فیض کیا ان میں یہ چند نام قابلِ ذکر ہیں۔
مولانا ظفر احمد عثمانیؒ،مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا ؒ،مولانا ابرار الحق ہردوئیؒ، مولانا صدیق احمد باندویؒ ، مولانا محمد ثانی حسنی،ؒ حضرت مولانا یوسف کاندھلویؒ، مولانا احتشام الحسن کاندھلویؒ، الحاج مفتی محمد جمیل احمد تھانوی۔
مندرجہ بالا شخصیات نے عالم اسلام کو اپنی تعلیم وتربیت سے جو کچھ بخشا ہے وہ محتاج تعارف نہیں بلاشبہ آسمان علم اور احیاء السنن کے یہ وہ آفتاب وماہتاب ہیں کہ جن کی روشنی میں مسلمانوں نے راہِ حق وصداقت کی منزلیں طے کی ہیں نیز ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اسلامی، روحانی تعلیمات کو عام کیا اور لاتعداد گمراہوں کو صراطِ مستقیم پر چلنا سکھایا۔
انہوں نے مظاہرعلوم کے عروج وترقی میں شبانہ روزمحنت کی تھی، اپنی مختصرزندگی میں اپنوں کی ایذارسانیاں بھی بہت برداشت کیں لیکن کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے،ان کی زندگی کاایک ایک ورق اور ان کی کتاب حیا ت کاایک ایک حرف ہم خردوں کے لئے رہبری ورہنمائی کا باعث ہے۔ان کے دوراہتمام میں مظاہرعلوم کا انتظام وانصرام بہت ہی معیاری ومثالی تھا حتیٰ کہ اپنی انتظامی اوراصولی صلاحیتوں میں معروف حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ بھی حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ کی انتظامی خوبیوں کے معترف ومداح تھے اور ہمیشہ مظاہرعلوم کے نظام کی غائبانہ تعریف کیاکرتے تھے۔شایدیہی وجہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی قربتیں اور نزدیکیاں کافی حد تک بڑھی ہوئی تھیں ،ٹھیک اسی زمانہ میں حضرت تھانویؒ مظاہرعلوم کے سرپرست بھی تھے،یہی وہ زمانہ تھا جب مظاہرعلوم کے اساتذہ وملازمین کے ایک بڑے طبقہ نے حضرت تھانویؒ سے اپنااصلاحی تعلق استوارکررکھاتھا۔
آپؒ کے زمانۂ اہتمام ۱۳۳۳ھ؁ سے ۱۳۷۴ھ؁ تک متعدد دینی مدارس کا قیام عمل میں آیا، یہ دور دینی مدارس کے لیے عہد زرّیں ثابت ہوا بلاشبہ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم کے فضلاء نے اسلامی دنیا میں ایک نئے دور کی ابتداء کی ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں میں دینی علمی رجحان پیدا کیا نیز دونوں مدرسوں نے مسلمانوں میں باہمی محبت جوش وجذبہ کے ساتھ کام کرنے کا سبق دیا آج ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ قومی اتحاد اور اسلامی تعلیمات دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا رہے ہیں بلاشبہ ہمارے اکابر علماء ایسے چراغ روشن کر گئے جن کی روشنی تا قیامت پھیلتی رہے گی۔
آپؒنے زمانہ اہتمام وتدریس میں نہایت ایمان داری اور خلوص نیت سے کام کیا اورمدرسہ کی ترویج وترقی کے لیے ہزاروں میل کے سفر کئے جن میں ۱۳۲۷ھ میں رنگون، برما وغیرہ کے مقامات قابلِ ذکر ہیں اس کے علاوہ میں مظاہر علوم نے زبردست ترقی کی طلبہ کی تعداد، تعمیرات میں اضافہ ہوا آپ کا دورِ انتظامی تاریخِ مدارس میں سدا قابل رشک رہے گا۔
آپؒ نے ۵۰/سال مظاہر علوم کی شاندار خدمات انجام دیں بالآخر ۱۹۵۴ء کویہ علم وعرفان اور رشد وہدایت کا پیکر اپنے خالق حقیقی سے جاملا اور اپنے پیچھے ایسے نور افشاں ستارے روشن کر گیا کہ جن کی روشنی میں ہزاروں مسلمانوں کو اپنی اصلاح اور تحصیل علم کے مواقع فراہم ہوتے رہیں گے۔
آپ کی تدفین قبرستان حاجی شاہ کمال الدین سہارنپورمیں ہوئی۔فرحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ